ذہن پر بوجھ رہا، دل بھی پریشان ہوا
ان بڑے لوگوں سے مل کر بڑا نقصان ہوا
مات اب کے بھی چراغوں کو ہوئی ہے لیکن
چاک اس بار ہوا کا بھی گریبان ہوا
اوڑھے پھرتا ہوں شہادت کی لہو رنگ قبا
رنگ تیرا تھا سو وہ ہی مری پہچان ہوا
عادتاً آنکھ چھلک اٹھی ہے ہنستے ہنستے
تو مرے دوست بلا وجہ پریشان ہوا
تیز پانی کی سی آواز گلے سے نکلی
اور سن کر اسے خنجر بڑا حیران ہوا
شاخ دل پر نہ کھلا اب کے برس ایک بھی پھول
کیسا آباد تھا یہ باغ جو ویران ہوا
دوست کیا اب تو منافق بھی کوئی ساتھ نہیں
سوکھے پھولوں سے بھی محروم یہ گلدان ہوا
آج اس درجہ مہذب جو نظر آتا ہے
یہ وہ انسان ہے صدیوں میں جو انسان ہوا
دل سے جاتا نہیں طارقؔ کسی کافر کا خیال
ہم مسلمان ہوئے دل نہ مسلمان ہوا
غزل
ذہن پر بوجھ رہا، دل بھی پریشان ہوا
طارق قمر