EN हिंदी
ذہن و دل میں کچھ نہ کچھ رشتہ بھی تھا | شیح شیری
zehn-o-dil mein kuchh na kuchh rishta bhi tha

غزل

ذہن و دل میں کچھ نہ کچھ رشتہ بھی تھا

امید فاضلی

;

ذہن و دل میں کچھ نہ کچھ رشتہ بھی تھا
اے محبت میں کبھی یکجا بھی تھا

مجھ میں اک موسم کبھی ایسا نہ تھا
ایسا موسم جس میں تو مہکا بھی تھا

تجھ سے ملنے کس طرح ہم آئے ہیں
راستے میں خون کا دریا بھی تھا

کج کلاہوں پر کہاں ممکن ستم
ہاں مگر اس نے مجھے چاہا بھی تھا

آج خود سایہ طلب ہے وقت سے
یہ وہی گھر ہے کہ جو سایہ بھی تھا

جانے کس صحرائے غم میں کھو گیا
ہائے وہ آنسو کہ جو دریا بھی تھا