ذہن میں لگتا ہے جب خوش رنگ لفظوں کا ہجوم
دھندلا دھندلا سا نظر آتا ہے لوگوں کا ہجوم
عمر بھر کے اے تھکے ہارے مسافر ہوشیار
منزلوں سے پیشتر ہے اک درختوں کا ہجوم
اس کی یادوں کا سماں بھی کس قدر پر کیف ہے
جیسے گلشن میں اتر آئے پرندوں کا ہجوم
مہرباں جب سے ہوئے جنگل پہ سورج دیوتا
زرد سا لگنے لگا سرسبز پیڑوں کا ہجوم
سہم جاتا ہوں اکیلا پا کے اپنے آپ کو
نصب ہو دیوار و در میں جیسے آنکھوں کا ہجوم
عہد ماضی کی طرف چاہا ہے دل نے لوٹنا
دیکھ کر اسکول کے معصوم بچوں کا ہجوم

غزل
ذہن میں لگتا ہے جب خوش رنگ لفظوں کا ہجوم
شاہد میر