ذہن میں ہو کوئی منزل تو نظر میں لے جاؤں
راہ رو کے نہ اگر گرد سفر میں لے جاؤں
دل سے بچ جائیں اگر داغ جگر میں لے جاؤں
کیوں چراغوں کو سر شام سحر میں لے جاؤں
کوئی آہٹ نہ کوئی عکس نہ منظر نہ ہوا
کس کو محسوس کروں کس کو خبر میں لے جاؤں
بام و در پر نظر آتے ہیں تھکن کے آثار
اپنا یہ بوجھ کسی دوسرے گھر میں لے جاؤں
اور کچھ خون ہو خوش رنگ تو دل میں روکوں
اور کچھ خاک ہو پامال تو سر میں لے جاؤں
جلتے منظر سے جدا ہونا پڑے گا کچھ کو
تشنگی تجھ کو اگر دیدۂ تر میں لے جاؤں
غزل
ذہن میں ہو کوئی منزل تو نظر میں لے جاؤں
تصور زیدی