EN हिंदी
ذہن میں دائرے سے بناتا رہا دور ہی دور سے مسکراتا رہا | شیح شیری
zehn mein daere se banata raha dur hi dur se muskuraata raha

غزل

ذہن میں دائرے سے بناتا رہا دور ہی دور سے مسکراتا رہا

غلام محمد قاصر

;

ذہن میں دائرے سے بناتا رہا دور ہی دور سے مسکراتا رہا
میں سمندر نہیں چاند کو علم ہے رات بھر پھر بھی مجھ کو بلاتا رہا

آنکھ میں خیمہ زن نیلگوں وسعتیں اپنا پہلا قدم ہی خلاؤں میں ہے
جو جفا کے جزیرہ نماؤں میں ہے دل کا اس خاک خستہ سے ناتا رہا

کج ادائی کی چادر سے منہ ڈھانپ کر سونے والا سر شام ہی سو گیا
خشک یادوں کے پتوں بھرے کھیت میں سانپ سا رات بھر سرسراتا رہا

دیر تک زرد آندھی سی چلتی رہی سانس بجھتی رہی شمع جلتی رہی
جاں پگھلتی رہی رات ڈھلتی رہی میں نہ روٹھا مگر وہ مناتا رہا

ان سنی سی صداؤں کے گھیرے میں تھا دیکھتے دیکھتے گھپ اندھیرے میں تھا
وہ مجھے پا کے دنیا کے بخشے ہوئے سب کے سب کھوٹے سکے چلاتا رہا

آزمائش میں ہے وہ گھڑی عید کی چاند نے جس کے آنے کی تائید کی
اک پھٹے پیرہن پر پسینے کی تہہ ایک گھر خوشبوؤں میں نہاتا رہا