ذہن کا سفر تنہا دل کی رہ گزر تنہا
آدمی ہوا یارو آج کس قدر تنہا
مقتدر سہاروں کی ہر قدم پہ حاجت ہے
کب مقام پاتا ہے اپنا یہ ہنر تنہا
پھر مجھے ڈرائیں گی خامشی کی آوازیں
پھر مجھے ہے طے کرنا رات کا سفر تنہا
جس کے سائے نے ہم کو بارہا پناہیں دیں
آج بھی کھڑا ہے وہ راہ میں شجر تنہا
دور بے نیازی میں کون کس کو پوچھے ہے
بھیڑ میں بھی پاتا ہے خود کو ہر بشر تنہا
غزل
ذہن کا سفر تنہا دل کی رہ گزر تنہا
احسن رضوی داناپوری