ذہن کا کچھ منتشر تو حال کا خستہ رہا
کتنا میری ذات سے وہ شخص وابستہ رہا
صبح کاذب روشنی کے جال میں آنے لگی
سیم گوں سورج اجالے پر کمر بستہ رہا
دیکھنے میں کچھ ہوں میں محسوس کرنے میں ہوں کچھ
چشم بینا پر مرا یہ راز سربستہ رہا
اپنے زنداں سے نکلنا اپنی طاقت میں نہیں
ہر بشر اپنے لیے زنجیر پابستہ رہا
پرسش غم میں نہ مجھ سے ہی محض عجلت ہوئی
اس کی آنکھوں کا چھلک پڑنا بھی برجستہ رہا
اپنے اندر کی خلش کا کر لیا میں نے علاج
میرے دل میں دوسروں کا درد پیوستہ رہا
یا مسائل سے تقابل زندگی سے یا فرار
بچ نکلنے کا وہاں سے ایک ہی رستہ رہا
غزل
ذہن کا کچھ منتشر تو حال کا خستہ رہا
یٰسین افضال