ذہن رسا کو اوج فلک تک اڑان دے
جو دل میں جاگزیں ہو وہ طرز بیان دے
حرف سخن دے ایسا کہ در یتیم ہو
دے تمکنت زبان میں لہجے میں شان دے
ارض و سما کی وسعتیں اب مجھ پہ تنگ ہیں
مجھ کو نئی زمین نیا آسمان دے
طوفان ابر و باد میں سب ہیں گھرے ہوئے
کشتی کو دے تو کس کی خبر بادبان دے
در پہ ہیں تیرے خون کے یہ تاجران زر
مت یوں کسی کے واسطے تو اپنی جان دے
ماضی کی ساعتوں کو بلاتا ہوں اس طرح
جیسے کوئی اجاڑ گھروں میں اذان دے
یہ جسم یہ بھبھوکا قبا تار تار سی
اقبالؔ اپنے حال پہ تھوڑا تو دھیان دے
غزل
ذہن رسا کو اوج فلک تک اڑان دے
اقبال حیدری