EN हिंदी
ذہن رسا کی گرہیں مگر کھولنے لگے | شیح شیری
zehn-e-rasa ki girhen magar kholne lage

غزل

ذہن رسا کی گرہیں مگر کھولنے لگے

وزیر آغا

;

ذہن رسا کی گرہیں مگر کھولنے لگے
پھر یوں ہوا کہ لوگ ہمیں تولنے لگے

آہستہ بات کر کہ ہوا تیز ہے بہت
ایسا نہ ہو کہ سارا نگر بولنے لگے

عمر رواں کو پار کیا تم نے اور ہم
رسی کے پل پہ پاؤں رکھا ڈولنے لگے

دستک ہوا ہی دے کہ یہ بندش تمام ہو
سونے گھروں میں کوئی تو رس گھولنے لگے

میں بن گیا گہر تو مرا اس میں دوش کیا
بے وجہ مجھ کو خاک میں تم رولنے لگے