ذہن رسا کی گرہیں مگر کھولنے لگے
پھر یوں ہوا کہ لوگ ہمیں تولنے لگے
آہستہ بات کر کہ ہوا تیز ہے بہت
ایسا نہ ہو کہ سارا نگر بولنے لگے
عمر رواں کو پار کیا تم نے اور ہم
رسی کے پل پہ پاؤں رکھا ڈولنے لگے
دستک ہوا ہی دے کہ یہ بندش تمام ہو
سونے گھروں میں کوئی تو رس گھولنے لگے
میں بن گیا گہر تو مرا اس میں دوش کیا
بے وجہ مجھ کو خاک میں تم رولنے لگے
غزل
ذہن رسا کی گرہیں مگر کھولنے لگے
وزیر آغا