ذہن میرا قیاس پہنے ہوئے
دل ہے خوف و ہراس پہنے ہوئے
اس کی آنکھوں میں سات دریا ہیں
اور مرے ہونٹ پیاس پہنے ہوئے
بھیڑیے نے عجیب چال چلی
چھپ گیا سبز گھاس پہنے ہوئے
بیٹھ جاتے ہیں بام و در اکثر
آئنے آس پاس پہنے ہوئے
ہیں جو منہ بولے کچھ فقیر میاں
یہ لبادے ہیں خاص پہنے ہوئے
بات کرتا ہے شام سناٹا
خامشی کا لباس پہنے ہوئے
شب ہجران ایک سایہ مجھے
کیوں ڈراتا ہے ماس پہنے ہوئے

غزل
ذہن میرا قیاس پہنے ہوئے
اسامہ امیر