EN हिंदी
زوال عظمت انساں کا مرثیہ ہوں میں | شیح شیری
zawal-e-azmat-e-insan ka marsiya hun main

غزل

زوال عظمت انساں کا مرثیہ ہوں میں

ناز قادری

;

زوال عظمت انساں کا مرثیہ ہوں میں
سر کشیدہ پہ دستار بے انا ہوں میں

سگ زمانہ سے آگے نکل گیا ہوں میں
اب اپنے سامنے تنہا کھڑا ہوا ہوں میں

مرے وجود میں در آیا کیسا سناٹا
کہ ریگ زار میں گم گشتہ اک صدا ہوں میں

ڈبو نہ دے کہیں مجھ کو بھی تشنگی کا سفر
کہ ریگ ریگ سرابوں کا سلسلہ ہوں میں

ادھر سے ہو کے کوئی مہرباں ہوا گزرے
دیار حبس میں صدیوں سے گھٹ رہا ہوں میں

جسے ملی ہے سزا حرف حق سنانے کی
صلیب لب پہ وہ ٹھہری ہوئی صدا ہوں میں

کھڑا ہوا ہوں حریفوں میں سر جھکائے ہوئے
کہ اپنے آپ سے اب کے بہت جدا ہوں میں

نہ کوئی عکس منور نہ منظر خوش رنگ
یہ کیسے خواب کے بستر پہ سو رہا ہوں میں

عجیب آندھی ہے یہ جسم و جاں کی آندھی بھی
مجھے سنبھال بکھرنے سے ڈر رہا ہوں میں

کبھی نہ چھو سکی باب اثر دعا میری
عجیب قہر مسلسل میں مبتلا ہوں میں

مجھے برسنے کی توفیق دے مرے اللہ
کہ ابر بن کے زمانے پہ چھا گیا ہوں میں

نہ چھو سکی مجھے حرص و ہوس کی پرچھائیں
خدا کا شکر قناعت سے آشنا ہوں میں

رفوگران ہنر نازؔ بے نمک تھے مگر
پھر اپنے زخم کو شاداب دیکھتا ہوں میں