EN हिंदी
ذوق الفت اب بھی ہے راحت کا ارماں اب بھی ہے | شیح شیری
zauq-e-ulfat ab bhi hai rahat ka arman ab bhi hai

غزل

ذوق الفت اب بھی ہے راحت کا ارماں اب بھی ہے

بشیر الدین احمد دہلوی

;

ذوق الفت اب بھی ہے راحت کا ارماں اب بھی ہے
دل پریشاں روح ترساں چشم گریاں اب بھی ہے

کب سنبھالے سے سنبھلتا ہے دل پر اضطراب
آہ سوزاں لب پر اب بھی سینہ بریاں اب بھی ہے

سعی کوشش کے لیے میدان ہے اب بھی فراخ
عزم راسخ کی ضرورت ہم کو ہاں ہاں اب بھی ہے

تخم میں روئیدگی ہر نخل میں بالیدگی
موسم سرما و گرما باد و باراں اب بھی ہے

خلق میں موجود ہیں اب بھی وہی لعل و گہر
تشنہ کامیٔ صدف کو ابر نیساں اب بھی ہے

شام بھی ہے صبح بھی ہے اور دن بھی رات بھی
ماہ تاباں اب بھی ہے مہر درخشاں اب بھی ہے

عاشق و معشوق بھی ہیں وصل و ہجر و رشک بھی
مہر الفت تیغ و خنجر تیر پیکاں اب بھی ہے

ہے وہی دیوانگی اب بھی وہی شوریدگی
جیب و دامن ہدیۂ خار بیاباں اب بھی ہے

شوق و ذوق اب بھی ہے باقی مردہ دل ہم ہیں تو ہیں
اپنے دل کو حسرت سیر گلستاں اب بھی ہے

عشق کی صورت جو بدلے تو ہو عاشق بھی کچھ اور
یہ جفا و جور کا ہر وقت خواہاں اب بھی ہے

آ گئی پیری مگر اب تک ہے تو محو خیال
ہم سبق طفلوں کا تو طفل دبستاں اب بھی ہے

گرمئ محفل وہی ہے جمع ہیں احباب بھی
ہستیٔ پروانہ و شمع شبستاں اب بھی ہے

غیرممکن ہے بدل جائے کبھی قانون حق
حکم یزداں اب بھی ہے اجرائے فرماں اب بھی ہے

کیوں مسلمانوں نے بدلا حال اپنی قوم کا
تھا جو قرآں بس وہی موجود قرآں اب بھی ہے

قشقہ بالائے جبیں زنار ہے بالائے دوش
یہ بتا ایمان سے کیا تو مسلماں اب بھی ہے

اتقا و زہد سے دل بستگی باقی نہیں
دعویٰ اسلام جیسا پہلے تھا ہاں اب بھی ہے

کھو دیئے ایام پیری نے تیرے ہوش و حواس
اے بشیرؔ بے نوا کچھ دل میں ارماں اب بھی ہے