ذوق نظارہ لیے ہم بھی خبر تک آئے
شب کے پہلو سے اٹھے اور سحر تک آئے
بوئے گل باد صبا رقص شرر تک آئے
رنگ ہونا تھا ہمیں خون جگر تک آئے
ابر رحمت ہے تو شبنم کی طرح سے اترے
رنگ خوشبو کی ہوا عرض ہنر تک آئے
اس سے پہلے ہی برس جاتا ہے اک ابر کرم
پاؤں کی دھول اٹھے اور مرے سر تک آئے
کیوں پریشان ہے تو اے مرے گم کردۂ راہ
راہ دشوار ہے لیکن مرے گھر تک آئے
پیش خیمہ تھا یہی فتح و ظفر کا شاید
زیر ہوتے ہوئے لشکر جو زبر تک آئے

غزل
ذوق نظارہ لیے ہم بھی خبر تک آئے
خالد جمال