ذوق نظر کو اذن نظارہ نہ مل سکا
تنہا کبھی وہ انجمن آرا نہ مل سکا
ہم پر تو جلد کھل گیا ساحل کا سب بھرم
اچھے رہے وہ جن کو کنارہ نہ مل سکا
یک طرفہ رابطہ ہی نبھانا پڑا ہمیں
ان کی طرف سے کوئی اشارہ نہ مل سکا
تم بھی قصوروار نہیں قصہ مختصر
میرا تمہارے ساتھ ستارہ نہ مل سکا
شہروں کی خاک چھانی کھنگالے ہیں دشت و در
لیکن ہمیں سراغ ہمارا نہ مل سکا
میں بھی تھی خود پسند نہیں اس میں شک کوئی
اکثر تو پر مزاج تمہارا نہ مل سکا
اے کاش ساتھیوں سے وہ اپنے کبھی کہے
شبنمؔ سا کوئی مجھ کو دوبارہ نہ مل سکا
غزل
ذوق نظر کو اذن نظارہ نہ مل سکا
شبنم شکیل