ذوق گناہ و عزم پشیماں لیے ہوئے
کیا کیا ہنر ہیں حضرت انساں لیے ہوئے
کفر و خرد کو راس نہ آئے گی زندگی
جب تک جنوں ہے مشعل انساں لیے ہوئے
ہوں ان کے سامنے مگر ان پر نظر نہیں
سعیٔ طلب ہے عزم گریزاں لیے ہوئے
دل کو سکون پستیٔ ساحل سے کیا غرض
ہر عزم ہے بلندئ طوفاں لیے ہوئے
گلشن کے دل میں آج بھی محفوظ ہیں وہ پھول
مرجھا گئے جو داغ بہاراں لیے ہوئے
آ ہی گئے وہ عرض ندامت کو اے شکیلؔ
لعلیں لبوں پہ خندۂ گریاں لیے ہوئے
غزل
ذوق گناہ و عزم پشیماں لیے ہوئے
شکیل بدایونی