ضرورتوں کی ہماہمی میں جو راہ چلتے بھی ٹوکتی ہے وہ شاعری ہے
میں جس سے آنکھیں چرا رہا ہوں جو میری نیندیں چرا رہی ہے وہ شاعری ہے
جو آگ سینے میں پل رہی ہے مچل رہی ہے بیاں بھی ہو تو عیاں نہ ہوگی
مگر ان آنکھوں کے آبلوں میں جو جل رہی ہے پگھل رہی ہے وہ شاعری ہے
تھا اک تلاطم مئے تخیل کے جام و خم میں تو جلترنگوں پہ چھڑ گئی دھن
جو پردہ دار نشاط غم ہے جو زخمہ کار نواگری ہے وہ شاعری ہے
یہاں تو ہر دن ہے اک سونامی ہے ایک جیسی ہر اک کہانی تو کیا سنو گے
مگر وہ اک خستہ حال کشتی جو مثل لاشہ پڑی ہوئی ہے وہ شاعری ہے
ہے بادلوں کے سیاہ گھوڑوں کے ساتھ ورنہ ہوا کی پرچھائیں کس نے دیکھی
دھلی دھلی دھوپ کے بدن پر جو چھاؤں جیسی سبک روی ہے وہ شاعری ہے
وہی تو کل سرمئی چٹانوں کے درمیاں سے گزر رہی تھی بپھر رہی تھی
وہی ندی اب تھکی تھکی سی جو ریت بن کر بکھر گئی ہے وہ شاعری ہے
گھڑی کی ٹک ٹک دلوں کی دھک دھک سے بات کرتی اگر تنفس مخل نہ ہوتا
تو ایسی شدت کی گو مگو میں جو ہم کلامی کی خامشی ہے وہ شاعری ہے
جو قہقہوں اور قمقموں سے سجی دھجی ہے اسی گلی سے گزر کے دیکھو
اندھیرے زینوں پہ سر بہ زانو جو بیکسی خون تھوکتی ہے وہ شاعری ہے
نہ ہجرتوں کے ہیں داغ باقی نہ اپنی گم گشتگی کا کوئی سراغ باقی
سو اب جو طاری ہے سوگواری جو اپنی فطرت سے ماتمی ہے وہ شاعری ہے
ہے لالہ زار افق سے آگے ابھی جو دھندلا سا اک ستارہ ہے استعارہ
جو ہوگی تیرہ شبی میں روشن وہ کوئی زہرہ نہ مشتری ہے وہ شاعری ہے
گذشتگانی ہے زندگانی نہ یہ ہوا ہے نہ ہے یہ پانی فقط روانی
جو واقعاتی ہے وہ ہے قصہ جو واقعی ہے وہ شاعری
جو حسن منظر ہے کینوس پر وہ رنگریزی نہیں برش کی تو اور کیا ہے
اب اس سے آگے کوئی نظر جس جہان معنی کو ڈھونڈھتی ہے وہ شاعری ہے
یہ شعر گوئی وہ خود فراموش کیفیت ہے جہاں خودی کا گزر نہیں ہے
خودی کی باز آوری سے پہلے جو بے خودی کی خود آگہی ہے وہ شاعری ہے
جو وارداتی صداقتوں کی علامتیں ہیں حدیث دل کی روایتیں ہیں
اسی امانت کو جو ہمیشہ سنبھالتی ہے سنوارتی ہے وہ شاعری ہے
انا کے دم سے ہے ناز ہستی انا کے جلووں کا آئینہ دار ہے ہر اک فن
وہ خود نمائی جو خوش نما ہے مگر جو تھوڑی سی نرگسی ہے وہ شاعری ہے
جو بات نثری ہے نظریاتی ہے جدلیاتی ہے وہ مکمل کبھی نہ ہوگی
مگر جو مجمل ہے اور موزوں ہے اور حتمی اور آخری ہے وہ شاعری ہے
تجارتوں کی سیاستیں اب ادب کی خدمت گزاریوں میں لگی ہوئی ہیں
جو جی رہا ہے جو گا رہا ہے مشاعرہ ہے جو مر رہی ہے وہ شاعری ہے
جو دیدہ ریزی بھی جاں گدازی کے ساتھ ہوگی تو لفظ سارے گہر بنیں گے
خلشؔ یقیناً یہ صرف زور قلم نہیں ہے جو شاعری ہے وہ شاعری ہے
غزل
ضرورتوں کی ہماہمی میں جو راہ چلتے بھی ٹوکتی ہے وہ شاعری ہے
بدر عالم خلش