EN हिंदी
ضرورت کچھ زیادہ ہو نہ جائے | شیح شیری
zarurat kuchh ziyaada ho na jae

غزل

ضرورت کچھ زیادہ ہو نہ جائے

نجیب احمد

;

ضرورت کچھ زیادہ ہو نہ جائے
سمندر اور گہرا ہو نہ جائے

یہ دھن یہ موج لے ڈوبے نہ مجھ کو
بگولا غرق صحرا ہو نہ جائے

ہوائیں سر برہنہ پھر رہی ہیں
قبائے گل تماشا ہو نہ جائے

ابھی کچھ تیر ترکش میں بھی ہوں گے
پرانا زخم اچھا ہو نہ جائے

قیامت کی گھڑی ہے آج سورج
سوا نیزے سے اونچا ہو نہ جائے

وہی امکان جس سے ڈر رہے ہیں
وہی امکان پیدا ہو نہ جائے

مری ہر بات سچی ہو رہی ہے
نجیبؔ اک حشر برپا ہو نہ جائے