ضرورت کچھ زیادہ ہو نہ جائے
سمندر اور گہرا ہو نہ جائے
یہ دھن یہ موج لے ڈوبے نہ مجھ کو
بگولا غرق صحرا ہو نہ جائے
ہوائیں سر برہنہ پھر رہی ہیں
قبائے گل تماشا ہو نہ جائے
ابھی کچھ تیر ترکش میں بھی ہوں گے
پرانا زخم اچھا ہو نہ جائے
قیامت کی گھڑی ہے آج سورج
سوا نیزے سے اونچا ہو نہ جائے
وہی امکان جس سے ڈر رہے ہیں
وہی امکان پیدا ہو نہ جائے
مری ہر بات سچی ہو رہی ہے
نجیبؔ اک حشر برپا ہو نہ جائے

غزل
ضرورت کچھ زیادہ ہو نہ جائے
نجیب احمد