ذروں میں کنمناتی ہوئی کائنات ہوں
جو منتظر ہے جسموں کی میں وہ حیات ہوں
دونوں کو پیاسا مار رہا ہے کوئی یزید
یہ زندگی حسین ہے اور میں فرات ہوں
نیزہ زمیں پہ گاڑ کے گھوڑے سے کود جا
پر میں زمیں پہ آبلہ پا خالی ہات ہوں
کیسا فلک ہوں جس پہ سمندر سوار ہے
سورج بھی میرے سر پہ ہے میں کیسی رات ہوں
اندھے کنویں میں مار کے جو پھینک آئے تھے
ان بھائیوں سے کہیو ابھی تک حیات ہوں
آتی ہوئی ٹرین کے جو آگے رکھ گئی
اس ماں سے یہ نہ کہنا بقید حیات ہوں
بازار کا نقیب سمجھ کر مجھے نہ چھیڑ
خاموش رہنے دے میں ترے گھر کی بات ہوں
غزل
ذروں میں کنمناتی ہوئی کائنات ہوں
بشیر بدر