EN हिंदी
ذرۂ ناتپیدہ کی خواہش آفتاب کیا | شیح شیری
zarra-e-na-tapida ki KHwahish-e-aftab kya

غزل

ذرۂ ناتپیدہ کی خواہش آفتاب کیا

علی جواد زیدی

;

ذرۂ ناتپیدہ کی خواہش آفتاب کیا
نغمۂ ناشنیدہ کا حوصلۂ رباب کیا

عمر کا دل ہے مضمحل زیست ہے درد مستقل
ایسے نظام دہر میں وسوسۂ عذاب کیا

نغمہ بہ لب ہیں کیاریاں رقص میں ذرہ تپاں
سن لیا کشت خشک نے زمزمۂ سحاب کیا

چہرۂ شب دمک اٹھا سرخ شفق جھلک اٹھی
وقت طلوع کہہ گیا جانے آفتاب کیا

رندوں سے باز پرس کی پیر مغاں سے دل لگی
آج یہ محتسب نے بھی پی ہے کہیں شراب کیا

شمع تھی لاکھ ادھ جلی بزم میں روشنی تو تھی
ورنہ غم نشاط میں روشنی گلاب کیا

غیر کی رہگزر ہے یہ دوست کی رہگزر نہیں
کون اٹھائے گا تجھے دیکھ رہا ہے خواب کیا

مدتوں سے خلش جو تھی جیسے وہ کم سی ہو چلی
آج مرے سوال کا مل ہی گیا جواب کیا

ہاں تری منزل مراد دور بہت ہی دور ہے
پھر بھی ہر ایک موڑ پر دل میں یہ اضطراب کیا