ذرہ بھی اگر رنگ خدائی نہیں دیتا
اندھا ہے تجھے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا
دل کی بری عادت ہے جو مٹتا ہے بتوں پر
واللہ میں ان کو تو برائی نہیں دیتا
کس طرح جوانی میں چلوں راہ پہ ناصح
یہ عمر ہی ایسی ہے سجھائی نہیں دیتا
گرتا ہے اسی وقت بشر منہ کے بل آ کر
جب تیرے سوا کوئی دکھائی نہیں دیتا
سن کر مری فریاد وہ یہ کہتے ہیں شاعرؔ
اس طرح تو کوئی بھی دہائی نہیں دیتا
غزل
ذرہ بھی اگر رنگ خدائی نہیں دیتا
آغا شاعر قزلباش