زرد موسم کی ہواؤں میں کھڑا ہوں میں بھی
اور اس سوچ میں گم ہوں کہ ہرا ہوں میں بھی
سن کے ہر شخص کچھ اس طرح گزر جاتا ہے
جیسے گرتے ہوئے پتوں کی صدا ہوں میں بھی
میری آواز شکستہ کی ستائش نہ کرو
اپنی آواز کی لہروں میں چھپا ہوں میں بھی
تجھ کو تخلیق کیا میں نے کہ مجھ کو تو نے
کون خالق ہے یہی سوچ رہا ہوں میں بھی
وہ جو طوفان خودی لے کے بڑا ہے عابدؔ
اس کو معلوم نہیں کوہ انا ہوں میں بھی
غزل
زرد موسم کی ہواؤں میں کھڑا ہوں میں بھی
عابد کرہانی