EN हिंदी
زرد گلابوں کی خاطر بھی روتا ہے | شیح شیری
zard gulabon ki KHatir bhi rota hai

غزل

زرد گلابوں کی خاطر بھی روتا ہے

ظہیرؔ رحمتی

;

زرد گلابوں کی خاطر بھی روتا ہے
کون یہاں پر میلے کپڑے دھوتا ہے

جس کے دل میں ہریالی سی ہوتی ہے
سب کے سر کا بوجھ وہی تو ڈھوتا ہے

سطحی لوگوں میں گہرائی ہوتی ہے
یہ ڈوبے تو پانی گہرا ہوتا ہے

صدیوں میں کوئی ایک محبت ہوتی ہے
باقی تو سب کھیل تماشا ہوتا ہے

دکھ ہوتا ہے وقت رواں کے ٹھہرنے سے
خوش ہونے کو وہی بہانا ہوتا ہے

شرماتے رہتے ہیں گہرے لوگ سبھی
دریا بھی تو پانی پانی ہوتا ہے

نور ٹپکتا ہے ظالم کے چہرے سے
دیکھو تو لگتا ہے کوئی سوتا ہے