زرد گلابوں کی خاطر بھی روتا ہے
کون یہاں پر میلے کپڑے دھوتا ہے
جس کے دل میں ہریالی سی ہوتی ہے
سب کے سر کا بوجھ وہی تو ڈھوتا ہے
سطحی لوگوں میں گہرائی ہوتی ہے
یہ ڈوبے تو پانی گہرا ہوتا ہے
صدیوں میں کوئی ایک محبت ہوتی ہے
باقی تو سب کھیل تماشا ہوتا ہے
دکھ ہوتا ہے وقت رواں کے ٹھہرنے سے
خوش ہونے کو وہی بہانا ہوتا ہے
شرماتے رہتے ہیں گہرے لوگ سبھی
دریا بھی تو پانی پانی ہوتا ہے
نور ٹپکتا ہے ظالم کے چہرے سے
دیکھو تو لگتا ہے کوئی سوتا ہے
غزل
زرد گلابوں کی خاطر بھی روتا ہے
ظہیرؔ رحمتی