EN हिंदी
ذرا سی بات تھی بات آ گئی جدائی تک | شیح شیری
zara si baat thi baat aa gai judai tak

غزل

ذرا سی بات تھی بات آ گئی جدائی تک

شاذ تمکنت

;

ذرا سی بات تھی بات آ گئی جدائی تک
ہنسی نے چھوڑ دیا لا کے جگ ہنسائی تک

بھلے سے اب کوئی تیری بھلائی گنوائے
کہ میں نے چاہا تھا تجھ کو تری برائی تک

تو چپکے چپکے مروت سے کیوں بچھڑتا ہے
مرا غرور بھی تھا تیری کج ادائی تک

مجھے تو اپنی ندامت کی داد بھی نہ ملی
میں اس کے ساتھ رہا اپنی نارسائی تک

اس آئینہ کا تو اب ریزہ ریزہ چبھتا ہے
یہ آئینہ جسے تکتی رہی خدائی تک

یہ حادثہ ہے مرے ضبط حال کے ہاتھوں
سفید ہو گئی کاغذ پہ روشنائی تک

پکارتی رہیں آنکھیں چلا گیا ہے کوئی
وہ اک سکوت تھا آواز سے دہائی تک

نکل کے دیکھا قفس سے تو آنکھ بھر آئی
وہ فصل گل کہ کھڑی تھی مری رہائی تک

غضب ہے ٹوٹ کے چاہا تھا شاذؔ نے جس کو
سنا یہ رسم بھی تھی صورت آشنائی تک