ذرا سی بات پہ ناراضگی اگر ہے یہی
تو پھر نبھے گی کہاں دوستی اگر ہے یہی
تمہیں دعا بھی ہم آسودگی کی کیسے دیں
جو ہم نے دیکھی ہے آسودگی اگر ہے یہی
ہمیں بکھرنا تو ہے کل نہیں تو آج سہی
ہمارا کیا ہے تمہاری خوشی اگر ہے یہی
ابھی نہ جانے ہمیں کتنے دوست کھونے پڑیں
ہماری باتوں میں بے ساختگی اگر ہے یہی
میں دل میں رکھتا نہیں منہ پہ صاف کہتا ہوں
کمی یہ مجھ میں ہے بے شک کمی اگر ہے یہی
جو راہ بھٹکوں تو اس کی گلی میں آ نکلوں
خوشا نصیب مری گمرہی اگر ہے یہی
مثال دینی تو اپنی ہی ذات کی دینی
تو پھر غرور ہے کیا عاجزی اگر ہے یہی
غزل
ذرا سی بات پہ ناراضگی اگر ہے یہی
مرتضیٰ برلاس