EN हिंदी
ذرا سا قطرہ کہیں آج اگر ابھرتا ہے | شیح شیری
zara sa qatra kahin aaj agar ubharta hai

غزل

ذرا سا قطرہ کہیں آج اگر ابھرتا ہے

وسیم بریلوی

;

ذرا سا قطرہ کہیں آج اگر ابھرتا ہے
سمندروں ہی کے لہجے میں بات کرتا ہے

now ever if a trifling droplet happens to appear
like the mighty oceans its head it seeks to rear

کھلی چھتوں کے دیئے کب کے بجھ گئے ہوتے
کوئی تو ہے جو ہواؤں کے پر کترتا ہے

the lamps on open terraces would long have been erased
the might of winds someone is who manages to shear

شرافتوں کی یہاں کوئی اہمیت ہی نہیں
کسی کا کچھ نہ بگاڑو تو کون ڈرتا ہے

decency has little value it does not get respect
Until harm is caused to them people do not fear

یہ دیکھنا ہے کہ صحرا بھی ہے سمندر بھی
وہ میری تشنہ لبی کس کے نام کرتا ہے

….
….

تم آ گئے ہو، تو کچھ چاندنی سی باتیں ہوں
زمیں پہ چاند کہاں روز روز اترتا ہے

how often does the moon condescend to come to earth
let us talk of love and joy now that you are here

زمیں کی کیسی وکالت ہو پھر نہیں چلتی
جب آسماں سے کوئی فیصلہ اترتا ہے

however you defend the earth it is of no avail
when a judgement is imposed from the heavens clear