EN हिंदी
ذرا نگاہ اٹھاؤ کہ غم کی رات کٹے | شیح شیری
zara nigah uThao ki gham ki raat kaTe

غزل

ذرا نگاہ اٹھاؤ کہ غم کی رات کٹے

دوارکا داس شعلہ

;

ذرا نگاہ اٹھاؤ کہ غم کی رات کٹے
نظر نظر سے ملاؤ کہ غم کی رات کٹے

اب آ گئے ہو تو میرے قریب آ بیٹھو
دوئی کے نقش مٹاؤ کہ غم کی رات کٹے

شب فراق ہے شمع امید لے آؤ
کوئی چراغ جلاؤ کہ غم کی رات کٹے

کہاں ہیں ساقی‌ و مطرب کہاں ہے پیر حرم
کہاں ہیں سب یہ بلاؤ کہ غم کی رات کٹے

کہاں ہو میکدے والو ذرا ادھر آؤ
ہمیں بھی آج پلاؤ کہ غم کی رات کٹے

نہیں کچھ اور جو ممکن تو یار شعلہؔ کی
کوئی غزل ہی سناؤ کہ غم کی رات کٹے