ذرا بھی جس کی وفا کا یقین آیا ہے
قسم خدا کی اسی سے فریب کھایا ہے
ہر ایک کافر و مومن کے کام آیا ہے
وہ ہر مقام جہاں میں نے سر جھکایا ہے
بہت غرور تھا ہوش و حواس پر لیکن
نظر جب ان سے ملی ہے تو ہوش آیا ہے
کبھی ہجوم الم میں بھی مسکرایا ہوں
کبھی خوشی کے بھی عالم میں جی بھر آیا ہے
انیس درد جدائی ترا کرم بھی نہیں
ترا ستم بھی تو رہ رہ کے یاد آیا ہے
اداس دیکھ کے مجھ کو اداس بیٹھے ہیں
تمام عمر کا غم آج راس آیا ہے
شمیمؔ موج و تلاطم سے کیا گلہ کیجے
سفینہ عین کنارے پہ ڈگمگایا ہے

غزل
ذرا بھی جس کی وفا کا یقین آیا ہے
شمیم جے پوری