ذرا بتلا زماں کیا ہے مکاں کے اس طرف کیا ہے
اگر یہ سب گماں ہے تو گماں کے اس طرف کیا ہے
اگر پتھر سے بکھرے ہیں تو آخر یہ چمک کیسی
جو مخزن نور کا ہے کہکشاں کے اس طرف کیا ہے
یہ کیا رستہ ہے آدم گامزن ہے کس مسافت میں
نہیں منزل تو پھر اس کارواں کے اس طرف کیا ہے
عجب پاتال ہے دروازہ و دیوار سے عاری
زمیں اندر زمیں بے نشاں کے اس طرف کیا ہے
تہہ آب رواں سنتا ہوں یہ سرگوشیاں کیسی
سکونت کس کی ہے اور آستاں کے اس طرف کیا ہے
سمجھتے آ رہے تھے جس خلا کو شہر گم گشتہ
وہ شے کیا ہے خلائے بے کراں کے اس طرف کیا ہے
نہیں کھلتا کہ آخر یہ طلسماتی تماشا سا
زمیں کے اس طرف اور آسماں کے اس طرف کیا ہے

غزل
ذرا بتلا زماں کیا ہے مکاں کے اس طرف کیا ہے
اعجاز گل