EN हिंदी
زر سرشک فضا میں اچھالتا ہوا میں | شیح شیری
zar-e-sarishk faza mein uchhaalta hua main

غزل

زر سرشک فضا میں اچھالتا ہوا میں

شاہد ذکی

;

زر سرشک فضا میں اچھالتا ہوا میں
بکھر چلا ہوں خوشی کو سنبھالتا ہوا میں

ابھی تو پہلے پروں کا بھی قرض ہے مجھ پر
جھجک رہا ہوں نئے پر نکالتا ہوا میں

کسی جزیرۂ پر امن کی تلاش میں ہوں
خود اپنی راکھ سمندر میں ڈالتا ہوا میں

پھلوں کے ساتھ کہیں گھونسلے نہ گر جائیں
خیال رکھتا ہوں پتھر اچھالتا ہوا میں

یہ کس بلندی پہ لا کر کھڑا کیا ہے مجھے
کہ تھک گیا ہوں توازن سنبھالتا ہوا میں

وہ آگ پھیلی تو سب کچھ سیاہ راکھ ہوا
کہ سو گیا تھا بدن کو اجالتا ہوا میں

بچھڑ گیا ہوں خود اپنے مقام سے شاہدؔ
بھٹکنے والوں کو رستے پہ ڈالتا ہوا میں