EN हिंदी
زنجیروں سے بندھا ہوا ہر ایک یہودی تکتا تھا | شیح شیری
zanjiron se bandha hua har ek yahudi takta tha

غزل

زنجیروں سے بندھا ہوا ہر ایک یہودی تکتا تھا

احمد جہانگیر

;

زنجیروں سے بندھا ہوا ہر ایک یہودی تکتا تھا
کوسوں دور سے بابل کا روشن مینار چمکتا تھا

غار کی رنگیں تصویروں کو اور زمانے دیکھیں گے
ہم نے بس وہ نقش کیا جو اس لمحے بن سکتا تھا

اک شفاف دریچے میں کچھ رنگ برنگے منظر تھے
گل دانوں میں پھول فروزاں آتش دان بھڑکتا تھا

میں جس مسند پر تھا وہ تو اک گوشے میں رکھی تھی
اور دریچہ چپکے سے منظر کی سمت سرکتا تھا

بارش چھپر تیز ہوائیں مصری جیسے سندھی گیت
یار سرائے کے چولھے پر میٹھا قہوہ پکتا تھا

جنگل گاؤں پرندے انساں قصے میں سب لاکھوں تھے
سیارے کا سورج لیکن تنہائی میں یکتا تھا