زنجیر جنوں کچھ اور کھنک ہم رقص تمنا دیکھیں گے
دنیا کا تماشہ دیکھ چکے اب اپنا تماشہ دیکھیں گے
اک عمر ہوئی یہ سوچ کے ہم جاتے ہی نہیں گلشن کی طرف
تم اور بھی یاد آؤگے ہمیں جب گل کوئی کھلتا دیکھیں گے
کیا فائدہ ایسے منظر سے کیوں خود ہی نہ کر لیں بند آنکھیں
اتنی ہی بڑھے گی تشنہ لبی ہم آپ کو جتنا دیکھیں گے
تم کیا سمجھو تم کیا جانو فرقت میں تمہاری دیوانے
کیا جانئے کیا کیا دیکھ چکے کیا جانئے کیا کیا دیکھیں گے
ہونے دو اندھیرا آج کی شب گل کر دو چراغوں کے چہرے
ہم آج خود اپنی محفل میں دل اپنا ہی جلتا دیکھیں گے
نوشادؔ ہم ان کی محفل سے اس واسطے اٹھ کر آئے ہیں
پروانوں کا جلنا دیکھ چکے اب اپنا تڑپنا دیکھیں گے
غزل
زنجیر جنوں کچھ اور کھنک ہم رقص تمنا دیکھیں گے
نوشاد علی