زنگ خوردہ لب اچانک آفتابی ہو گئے
اس گل خوش رنگ کو چھو کر گلابی ہو گئے
اس غزل پر آیت پیغمبری اتری ہے کیا
لوگ کہتے ہیں کہ سب مصرعے صحابی ہو گئے
جھومنے لگتے ہیں اس کو دیکھتے ہی باغ میں
ایسے لگتا ہے پرندے بھی شرابی ہو گئے
اب تو مجھ پر بھی نہیں کھلتا ہے دروازہ مرا
تم تو آتے ہی مرے کمرے کی چابی ہو گئے
دوست آدم خور چڑیوں سے ابھی ہے واسطہ
کیا کروں گا جب کبوتر بھی عقابی ہو گئے
غزل
زنگ خوردہ لب اچانک آفتابی ہو گئے
عاطف کمال رانا