زنگ آلود زباں تک پہونچی ہونٹوں کی مقراض
خاموشی کی جھیل میں ڈوبی پسماندہ آواز
کاغذ پر الجھاتے رہئے شبدوں کی زنجیر
آتے آتے آ جائے گا لکھنے کا انداز
حال کا ماتم کرتے کرتے آنکھیں خشک ہوئیں
مستقبل کی سوچ رہا ہے ماضی کا نباض
خوشیوں کی دھندلی تصویریں رونے کی تمہید
اشکوں کی کالی پرچھائیں ہنسنے کا آغاز
آؤ سورج نوچ کے اندھی آنکھوں میں بھر لیں
کب تک آخر چاٹی جائے تاریکی کی بیاض

غزل
زنگ آلود زباں تک پہونچی ہونٹوں کی مقراض
سلطان اختر