EN हिंदी
زمزمہ اضطراب کچھ بھی نہ تھا | شیح شیری
zamzama iztirab kuchh bhi na tha

غزل

زمزمہ اضطراب کچھ بھی نہ تھا

سجاد بلوچ

;

زمزمہ اضطراب کچھ بھی نہ تھا
عشق خانہ خراب کچھ بھی نہ تھا

میرا سب کچھ تھا صرف ایک سوال
اور اس کا جواب کچھ بھی نہ تھا

سانس تک تو گنے چنے ہوئے تھے
کچھ نہ تھا بے حساب کچھ بھی نہ تھا

سجدۂ شکر نے بچایا ہے
ورنہ میرا ثواب کچھ بھی نہ تھا

اب تجھے دیکھ کر یہ جانا ہے
وہ جو دیکھا تھا خواب کچھ بھی نہ تھا