زمیں سے تا فلک چھائی ہوئی ہے روشنئ لا
یہ سارا شہر ہے میری نظر میں آنکھ کا دھوکا
سمندر میں ندی بن کر اتر جاؤں کہاں تک میں
نگل جائے گا پانی ایک دن سارا بدن میرا
اگل دے گی زمیں سب آگ اک دن اپنے اندر کی
رکھے کب تک بھلا یہ بوجھ سینے پر پہاڑوں کا
نگر کو لوگ کھلتا سا اک آئینہ سمجھتے تھے
مگر مجھ کو نظر آیا کوئی چہرہ نہ اپنا سا
اسے میں ڈھونڈھتا تھا رات کی گہری خموشی میں
نہ جانے کس طرح پھر شہر میں میرا ہوا چرچا
غزل
زمیں سے تا فلک چھائی ہوئی ہے روشنئ لا
پریمی رومانی