زمیں سے شکر و شکایت ہے آسماں سے نہیں
کہ ہم یہیں سے ہیں جو کچھ بھی ہیں وہاں سے نہیں
بس ایک سایہ سا پھرتا ہے دل میں آوارہ
ہمارے غم کا کوئی سلسلہ فغاں سے نہیں
سوال شعلۂ نوک زباں ہے کیا کہیے
کہاں سے آئے ہیں ہم لوگ اور کہاں سے نہیں
روش میں چرخ تپش میں زمیں دہش میں سحاب
یہ مشت خاک کسی تیرہ خاکداں سے نہیں
ہنر ہے مستئ جاں رونق دکاں کیوں ہو
عیار مستئ جاں رونق دکاں سے نہیں
مرا نسب ہے مری ذات پاک سے ظاہر
شرافت نسبی نوبت و نشاں سے نہیں
غزل
زمیں سے شکر و شکایت ہے آسماں سے نہیں
خورشید الاسلام

