EN हिंदी
زمیں سے چل کے تو پہنچا ہوں آسماں تک میں | شیح شیری
zamin se chal ke to pahuncha hun aasman tak main

غزل

زمیں سے چل کے تو پہنچا ہوں آسماں تک میں

عابد حشری

;

زمیں سے چل کے تو پہنچا ہوں آسماں تک میں
سفر کا بوجھ اٹھائے پھروں کہاں تک میں

ازل وجود سفر راستے کی دھند عدم
قصوروار ہوں ترتیب داستاں تک میں

سکون زیست عبارت تھا جس کی یادوں سے
بھلا چکا ہوں وہ حرف قرار جاں تک میں

یہ سوچ کر نہ کوئی راستے میں لٹ جائے
دئے جلاتا چلا کوئے دلبراں تک میں

میں زندگی کی عنایات سے نہیں محروم
قریب ہوں غم دل سے غم جہاں تک میں

نہ فرش میرا ٹھکانہ نہ عرش میرا مقام
یہ اور بات زمیں پر ہوں آسماں تک میں