زمیں سے چل کے تو پہنچا ہوں آسماں تک میں
سفر کا بوجھ اٹھائے پھروں کہاں تک میں
ازل وجود سفر راستے کی دھند عدم
قصوروار ہوں ترتیب داستاں تک میں
سکون زیست عبارت تھا جس کی یادوں سے
بھلا چکا ہوں وہ حرف قرار جاں تک میں
یہ سوچ کر نہ کوئی راستے میں لٹ جائے
دئے جلاتا چلا کوئے دلبراں تک میں
میں زندگی کی عنایات سے نہیں محروم
قریب ہوں غم دل سے غم جہاں تک میں
نہ فرش میرا ٹھکانہ نہ عرش میرا مقام
یہ اور بات زمیں پر ہوں آسماں تک میں
غزل
زمیں سے چل کے تو پہنچا ہوں آسماں تک میں
عابد حشری