زمیں سے آسماں تک آسماں سے لا مکاں تک ہے
ذرا پرواز مشت خاک تو دیکھو کہاں تک ہے
تلاش و جستجو کی حد فقط نام و نشاں تک ہے
سراغ کارواں بھی بس غبار کارواں تک ہے
جبین شوق کو کچھ اور بھی اذن سعادت دے
یہ ذوق بندگی محدود سنگ آستاں تک ہے
سراپا آرزو بن کر کمال مدعا ہو جا
وہ ننگ عشق ہے جو آرزو آہ و فغاں تک ہے
بڑھائے جا قدم راہ طلب میں شوق سے وحشیؔ
کہ حد سعی لا حاصل فقط کون و مکاں تک ہے
غزل
زمیں سے آسماں تک آسماں سے لا مکاں تک ہے
وحشی کانپوری