زمیں پہ ایڑی رگڑ کے پانی نکالتا ہوں
میں تشنگی کے نئے معانی نکالتا ہوں
وہی بر آمد کروں گا جو چیز کام کی ہے
زباں کے باطن سے بے زبانی نکالتا ہوں
فلک پہ لکھتا ہوں خاک خوابیدہ کے مناظر
زمین سے رنگ آسمانی نکالتا ہوں
کبھی کبوتر کی طرح لگتا ہے ابر مجھ کو
کبھی ہوا سے کوئی کہانی نکالتا ہوں
بہت ضروری ہے میرا اپنی حدوں میں رہنا
سو بحر سے خود ہی بے کرانی نکالتا ہوں
کبھی ملاقات ہو میسر تو اس سے پہلے
دماغ سے ساری خوش گمانی نکالتا ہوں
جو چھیڑتا ہوں نیا کوئی نغمۂ محبت
تو ساز دل سے دھنیں پرانی نکالتا ہوں
کوئی ٹھہر کر بھی دیکھنا چاہتا ہوں منظر
اسی لیے طبع سے روانی نکالتا ہوں
ظفرؔ مرے سامنے ٹھہرتا نہیں ہے کوئی
تو اپنے پیکر سے اپنا ثانی نکالتا ہوں
غزل
زمیں پہ ایڑی رگڑ کے پانی نکالتا ہوں
ظفر اقبال