زمیں پہ بیٹھ کے بے اختیار ڈھونڈھتا ہوں
میں آسمان کا گرد و غبار ڈھونڈھتا ہوں
مجھے پتہ ہے کسی میں یہ شے نہیں موجود
ہر ایک شخص میں کیوں اعتبار ڈھونڈھتا ہوں
اکیلا بیٹھ کے مسجد کے ایک کونے میں
کمال کرتا ہوں پروردگار ڈھونڈھتا ہوں
کہ آئنے میں کئی آئینے کئے تخلیق
سو ایک چہرے میں چہرے ہزار ڈھونڈھتا ہوں
تمہاری یاد تو رکھی ہے جیب میں میں نے
یہ کیوں ادھر سے ادھر بار بار ڈھونڈھتا ہوں
میں ایسے عالم وحشت میں ہوں کہ تنہائی
پکارتی ہے مجھے میں پکار ڈھونڈھتا ہوں
مرے لئے تو خط انتظار کھینچتی ہے
ترے لئے میں خط انتظار ڈھونڈھتا ہوں

غزل
زمیں پہ بیٹھ کے بے اختیار ڈھونڈھتا ہوں
اسامہ امیر