زمیں پر بس لہو بکھرا ہمارا
ابھی بکھرا نہیں جذبہ ہمارا
ہمیں رنجش نہیں دریا سے کوئی
سلامت گر رہے صحرا ہمارا
ملا کر ہاتھ سورج کی کرن سے
مخالف ہو گیا سایہ ہمارا
رقیب اب وہ ہمارے ہیں جنھوں نے
نمک تا زندگی کھایا ہمارا
ہے جب تک ساتھ بنجارہ مجازی
کہاں منزل کہاں رستہ ہمارا
تعلق ترک کر کے ہو گیا ہے
یہ رشتہ اور بھی گہرا ہمارا
بہت کوشش کی لیکن جڑ نہ پایا
تمہارے نام میں آدھا ہمارا
ادھر سب ہم کو قاتل کہہ رہے ہیں
ادھر خطرے میں تھا کنبہ ہمارا
غزل
زمیں پر بس لہو بکھرا ہمارا
سراج فیصل خان