زمیں نژاد ہیں لیکن زماں میں رہتے ہیں
مکاں نصیب نہیں لا مکاں میں رہتے ہیں
وہ ڈول ڈالیں کسی کار پائیدار کا کیا
جو بے ثباتیٔ عمر رواں میں رہتے ہیں
ہم ایسے اہل چمن گوشۂ قفس میں بھی
حساب خار و خس آشیاں میں رہتے ہیں
نہ بود و باش کو پوچھو کہ ہم فقیر منش
سخن کے معبد بے سائباں میں رہتے ہیں
کہاں تلاش کرو گے ہمیں کہ ہم تو مدام
حضوریٔ دل بے خانماں میں رہتے ہیں
نشے کی لہر میں خم خم لنڈھا کے آب حیات
سراب زندگیٔ جاوداں میں رہتے ہیں
نئی محبتیں خالدؔ پرانی دوستیاں
عذاب کشمکش بے اماں میں رہتے ہیں
غزل
زمیں نژاد ہیں لیکن زماں میں رہتے ہیں
عبد العزیز خالد