EN हिंदी
زمیں مدار سے اپنے اگر نکل جائے | شیح شیری
zamin madar se apne agar nikal jae

غزل

زمیں مدار سے اپنے اگر نکل جائے

اقبال نوید

;

زمیں مدار سے اپنے اگر نکل جائے
نہ جانے کون سا منظر کدھر نکل جائے

اب آفتاب سوا نیزے پر اترنا ہے
گرفت شب سے ذرا یہ سحر نکل جائے

ثمر گرا کے بھی آندھی کی خو نہیں بدلی
یہی نہیں کہ جڑوں سے شجر نکل جائے

اب اتنی زور سے ہر گھر پہ دستکیں دینا
اگر جواب نہ آئے تو در نکل جائے

میں چل پڑا ہوں تو منزل بھی اب ملے گی نویدؔ
یہ راستہ مجھے لے کر جدھر نکل جائے