زمیں لپیٹتا ہے آسماں سمیٹتا ہے
کہاں کی بات کو یہ دل کہاں سمیٹتا ہے
حسین رفعتیں تقسیم کرتا ہے اب بھی
یزید آج بھی رسوائیاں سمیٹتا ہے
وہیں پہ گردشیں رک سکتی ہیں زمانے کی
وہ جست بھرتا ہے اور پر جہاں سمیٹتا ہے
اسے بتانا کہ تم جب کہیں بھی ٹوٹتے ہو
تمہاری کرچیاں کوئی یہاں سمیٹتا ہے
کسی میں نادیہؔ جز عشق اتنا ظرف کہاں
ہے کون بکھرے دلوں کو جو یاں سمیٹتا ہے
غزل
زمیں لپیٹتا ہے آسماں سمیٹتا ہے
نادیہ عنبر لودھی