زمیں کو آسماں لکھا گیا ہے
یقینوں کو گماں لکھا گیا ہے
جو کہنا تھا کبھی منہ سے نہ نکلا
جو لکھنا تھا کہاں لکھا گیا ہے
اداسی کا قصیدہ اس برس بھی
سر دیوار جاں لکھا گیا ہے
چراغوں کو ہواؤں کا پیمبر
خموشی کو زباں لکھا گیا ہے
مرے لفظوں سے اتنی برہمی کیوں
بہت کچھ رائیگاں لکھا گیا ہے
غزل
زمیں کو آسماں لکھا گیا ہے
اسعد بدایونی