زمیں کی کوکھ سے پہلے شجر نکالتا ہے
وہ اس کے بعد پرندوں کے پر نکالتا ہے
شب سیاہ میں جگنو بھی اک غنیمت ہے
ذرا سا حوصلہ اندر کا ڈر نکالتا ہے
کہ بوڑھے پیڑ کے تیور بدلنے لگتے ہیں
کہیں جو گھاس کا تنکا بھی سر نکالتا ہے
پھر اس کے بعد ہی دیتا ہے کام کی اجرت
ہمارے خون سے پہلے وہ زر نکالتا ہے
وظیفہ تجھ کو بتاتا ہوں ایک چاہت کا
جو قصر ذات سے نفرت کا شر نکالتا ہے
کہانی لکھتا ہے ایسے کہ اس کا ہر کردار
نکلنا کوئی نہ چاہے مگر نکالتا ہے
میں ایسے شخص سے ارشدؔ گریز کیسے کروں
فصیل دل میں جو دستک سے در نکالتا ہے
غزل
زمیں کی کوکھ سے پہلے شجر نکالتا ہے
ارشد محمود ارشد