EN हिंदी
زمیں کے ساتھ فلک کے سفر میں ہم بھی ہیں | شیح شیری
zamin ke sath falak ke safar mein hum bhi hain

غزل

زمیں کے ساتھ فلک کے سفر میں ہم بھی ہیں

غیاث متین

;

زمیں کے ساتھ فلک کے سفر میں ہم بھی ہیں
قفس نصیب سہی بال و پر میں ہم بھی ہیں

وہیں سے لوٹ گئی راستوں کی تنہائی
جہاں پہ اس نے یہ جانا سفر میں ہم بھی ہیں

تو وہ شجر جو سدا برگ و بار دیتا ہے
مثال آب نہاں اس شجر میں ہم بھی ہیں

جسے کہیں سے سمندر نے لا کے پھینک دیا
تمہارے ساتھ اک ایسے ہی گھر میں ہم بھی ہیں

کتاب تھے تو پڑھے جا سکے نہ دنیا سے
لو اب چراغ ہوئے رہ گزر میں ہم بھی ہیں

خیال آگ ہے شعلہ ہے فکر لو الفاظ
یہ سب ہنر ہیں تو پھر اس ہنر میں ہم بھی ہیں

متینؔ شہر بھی صحرا نژاد ہے اتنا
کہ سنگ و خشت میں دیوار و در میں ہم بھی ہیں