زمیں کے چاند ستاروں کو نیند آتی ہے
حیات بخش بہاروں کو نیند آتی ہے
ابھی چمن کا مقدر چمک نہیں سکتا
ابھی چمن کی بہاروں کو نیند آتی ہے
جنازہ اشکوں کا پلکوں کے دوش پر ہے ابھی
اسی لئے تو نظاروں کو نیند آتی ہے
نظام بزم گلستاں بدل گیا شاید
چمن کی گود میں خاروں کو نیند آتی ہے
اب انقلاب زمانہ کی فکر کون کرے
تری نگاہ کے ماروں کو نیند آتی ہے
نہ ڈوب جائے کہیں نبض زندگی میکشؔ
سحر کا وقت ہے تاروں کو نیند آتی ہے
غزل
زمیں کے چاند ستاروں کو نیند آتی ہے
میکش ناگپوری