زمیں کہیں ہے مری اور آسمان کہیں
بھٹک رہا ہوں خلاؤں کے درمیان کہیں
مرا جنوں ہی مرا آخری تعارف ہے
میں چھوڑ آیا ہوں اپنا ہر اک نشان کہیں
اسی لیے میں روایت سے منحرف نہ ہوا
کہ چھوڑ دے نہ مجھے میرا خاندان کہیں
لکھی گئی ہے مری فرد جرم اور جگہ
لیے گئے ہیں گواہان کے بیان کہیں
ہوائے تند سے لڑنا مری جبلت ہے
ڈبو ہی دے نہ مجھے یہ مری اڑان کہیں
دل حزیں کا عجب حال ہے محبت میں
کوئی غضب ہی نہ ڈھا دے یہ ناتوان کہیں
میں داستان محبت اسے سنا آیا
کہیں کا ذکر تھا لیکن کیا بیان کہیں
ہوائے شہر تجھے راس ہی نہیں آصفؔ
مثال قیس تو صحرا میں خاک چھان کہیں

غزل
زمیں کہیں ہے مری اور آسمان کہیں
آصف شفیع