زمیں کا دم نکلتا جا رہا ہے
خدا کا کام چلتا جا رہا ہے
یہ کن ہاتھوں میں سورج آ گیا ہے
چھتوں سے دن پگھلتا جا رہا ہے
پرندے ممٹیوں پہ رو رہے ہیں
شجر ہر گھر سے کٹتا جا رہا ہے
عجب سا وہم دل پہ جم گیا ہے
بدن سائے سے گھٹتا جا رہا ہے
ہوا بھی سرد ہوتی جا رہی ہے
سمندر بھی اترتا جا رہا ہے
جو سنتے ہیں وہ گم جاتا ہے فوراً
جو لکھتے ہیں وہ مٹتا جا رہا ہے

غزل
زمیں کا دم نکلتا جا رہا ہے
حسین عابد